کائنات کے سب سے بڑے بلیک ہولز کے پراسرار وجود اور ارتقا کی دلچسپ کہانی
اربوں سالوں سے کہکشاں ’یو جی سی 11700‘ کے پھول کی پنکھڑیوں جیسے بازو خلا میں ایسے ہی گھومتے رہے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ اس دوران کتنے ہی قدرتی ٹاکروں اور ملاپ کے باعث دوسری کہکشاؤں کی وضع قطع ہی تبدیل ہو چکی ہے۔
ویسے تو کہکشاں ’یو جی سی 11700‘ کی پن چکی نما شکل خاصی خوش نما دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے وسط میں ایک دیوہیکل چیز بسی ہے۔ اس خوبصورت کہکشاں کے وسط میں اس کائنات کی سب سے پراسرار چیزوں میں سے ایک، ایک دیوہیکل بلیک ہول موجود ہے۔
عمومی طور پر بلیک ہولز سورج سے چار گنا بڑے ہوتے ہیں تاہم ان کے دیوہیکل رشتہ دار کروڑوں اور کئی اربوں گنا بڑے ہو سکتے ہیں
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ تقریباً ہر بڑی کہکشاں کے وسط میں ایک دیو ہیکل بلیک ہول موجود ہے۔ تاہم کسی کو تاحال یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ وہاں کیسے پہنچے۔ اس بات کا پتہ چلانے کے لیے کہکشاں یو جی سی 11700 مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں دیوہیکل بلیک ہولز پر کام کرنے والی جونیئر محقق بیکی سمتھہرسٹ کا کہنا ہے کہ ’میں جن آئیڈیل کہکشاؤں پر کام کر رہی ہوں ان کی بہترین بل کھاتی وضع انھیں انتہائی خوبصورت بنا دیتی ہے۔ لیکن یہی خوبصورت کہکشائیں اس راز سے پردہ اٹھانے میں ہماری مدد کریں گی کہ یہ بلیک ہولز کیسے پھیل کر بڑے ہوتے ہیں۔‘
پوری کائنات کی تاریخ اور ڈھانچے سے بھی۔ ان کے حوالے سے موجود سوالات کے جواب ڈھونڈ کر سائنسدانوں کو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کائنات ویسی کیوں ہے جیسی یہ ہے۔
توانائی کا اخراج بہت سے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے بلیک ہولز اپنے اسرار سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
جب بلیک ہولز کا ملاپ ہوتا ہے یا وہ اپنے سے کم بھاری چیزوں جیسے کسی نیوٹرن ستارے سے ٹکراتے ہیں تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شعاعوں کو گریویٹیشنل ویوز یعنی کششِ ثقل کی لہریں کہا جاتا ہے۔ یہ لہریں خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں اور انھیں پہلی مرتبہ زمین پر سنہ 2015 میں آلات کے ذریعے محسوس کیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے امریکہ میں لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹریز (لائیگو) اور اٹلی میں پیسا کے قریب ورگو فیسیلیٹی جیسی بڑی رصد گاہوں میں ان ٹاکروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہروں کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔
مگر بھلے ہی یہ رصدگاہیں کئی کلومیٹر طویل آلات استعمال کرتی ہیں مگر ان کے ذریعے متوسط حجم کے بلیک ہولز کے بارے میں ہی معلومات اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔
میکس پلینک انسٹیٹیوٹ فار ایسٹرونومی‘ میں گلیکٹک نیوکلائی ریسرچ گروپ کی سربراہ نیڈائین نیومائیر کہتی ہیں کہ ’لائیگو نے اب تک صرف سورج سے 150 گنا تک بڑے ستاروں کے ملاپ کا پتا چلایا ہے۔ ’درمیانے حجم کے بلیک ہولز‘ کہلائے جانے والے بلیک ہولز کے بارے میں اب بھی ڈیٹا کم ہے جو سورج سے 10 ہزار گنا زیادہ تک بڑے ہو سکتے ہیں۔ اور یہی بلیک ہولز انتہائی بڑے حجم کے بلیک ہولز کا نکتہ آغاز بنتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ درمیانے حجم کے بلیک ہولز گیس کے بڑے بادلوں کے آپس میں ٹکرانے یا پھر ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کے باعث کائنات کے ابتدائی زمانے میں شاید پیدا ہوئے ہوں۔
Comments
Post a Comment