آج سے تقریبا بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں سے شہر جانے والی سڑک کچی تھی۔


کچی سڑک کی وجہ سے آنے جانے والے لوگوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔۔


ظاہر بات ہے سڑک کچی تھی اسی لیے آمدورفت کے لیے گاڑی بھی آ جا نہیں سکتی تھی ۔۔


لہذا لوگ بیل گاڑی یا تانگوں پر شہر جایا کرتے تھے ۔۔


سواری کے لیے زیادہ تر تانگے اور سامان وغیرہ جیسے کھاد اناج وغیرہ  لانا یا شہر لے جانا پڑتا تو بیل گاڑی پر لاتے تھے ۔۔


شفیق بھائی کی بھی ایک بیل گاڑی تھی جسے چلا کروہ اپنا گزر بسر کرتے تھے ۔۔


ان کے دو طاقتور اور خوبصورت بیل تھے ۔۔


بڑے ذمیندار اپنے اناج ٹریکٹر ٹرالی پر لے آتے جاتے تھے اور چھوٹے زمیندار  یا عام لوگ اپنا سامان شفیق  بھائی کی بیل گاڑی پر لے جاتے تھے ۔۔


اور شہر سے کھاد وغیرہ خرید کر شفیق بھائی ہی کی بیل گاڑی پر لاتے تھے ۔۔


شفیق بھائی کی بیل گاڑی پورے گاؤں میں مشہور تھی جس کو جو بھی کام پڑتا وہ شفیق بھائی کو ہی کہتا تھا ۔۔


شفیق بھائی دن بھر میں پورے گاؤں کے دو چکر لگاتے تھے ۔۔


اور شام ہونے سے پہلے پہلے گھر آ جاتے تھے ۔۔


وہ شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ تھے ۔۔


دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔۔


ان کی بیوی نیک اور گھریلو عورت تھی۔ ۔


بڑی بیٹی 13سال اور چھوٹی دس سال اور چھوٹا بیٹا آٹھ سال کا تھا ۔۔

شفیق بھائی اپنی زندگی میں بہت خوش ہے ۔۔


گزارہ ان کا بہت اچھا ہوتا تھا ۔۔


اور زندگی میں ہر طرح کا

 سکون ہی سکون تھا ۔۔


پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی میں ہلچل مچ گئی ۔۔


اس سال گندم کا سیزن تھا ۔۔


ہر طرف گندم کی کٹائی ہو رہی تھی ۔۔

اور پھر گندم کی خریدوفروخت بھی شروع ہو گئی ۔۔


ہر کوئی اناج اپنی ضرورت کے لیے اکٹھا کرتا

 اور کوئی اکٹھا کر کے شہر لے جا کر بیچ دیتا ۔


گاؤں مغرب کی طرف اور شہر مشرق کی طرف تھا ۔۔

اور درمیان میں ایک لمبا دھول مٹی گھٹا اڑاتا ہوا ایک راستہ تھا۔۔

شہر اور گاؤں کے بیچ میں ایک پرانا بنگلہ تھا ۔۔

جو راستے پر ایک طرف کچھ فاصلے پر درختوں کے جھنڈ کے درمیان میں کھڑا تھا  ۔۔

یہ بنگلہ آزادی سے پہلے سکھوں کا تھا ۔۔

جسے آزادی کے بعد سکھ چھوڑ گئے اور پھر یہ بنگلہ دوبارہ آباد نہ ہوا ۔۔

بنگلہ چار چار کمروں پر مشتمل چار  منزلہ تھا ۔۔۔

یعنی پہلی منزل پر چار چار  کمرے ۔۔

دوسری تیسری اور چوتھی پر بھی چار چار کمرے تھے.

 جس کے ارد گرد حویلی نما دیوار جو کہ گر چکی تھی

 اور بنگلہ ابھی تک کھڑا ہوا تھا ۔۔

اس بنگلے کے اردگرد بڑے بڑے درخت اور کانٹے دار جھاڑیاں اگ آئی تھی ۔۔

جو بھی اس راستے سے گزرتا تو اس دیو نما بنگلے کو دیکھتا تو خوف سے لرز جاتا تھا ۔۔

وہ بنگلہ جنات والے بنگلوں کے نام سے مشہور ہو چکا تھا جو کہ اب مشہور تھا کہ اس میں اب جنات کا بسیرا ہے ۔۔

جو بھی اس راستے سے گزرتا اسے بنگلے کے اندر سے باتیں کرنے کی یا بچوں کے رونے اور ہنسنے کی آوازیں سنائی دیتی ۔۔


کبھی کبھی اس راستے سے گزرنے والوں پر پتھر برستے تھے ۔۔

جن سے بہت سارے لوگ زخمی بھی ہوئے تھے ۔۔

کبھی کسی کو درختوں کے قریب اونٹ چڑھتے دکھائی دیتے ۔۔

کسی کو گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آتی ۔

کچھ لوگ وہاں بچے کھیلتے دیکھتے تھے ۔۔

کچھ لوگوں نے بنگلے کی آخری منزل والی چھت پر لڑکیوں کو کھڑے ہوئے بھی دیکھا تھا ..

کسی نے لڑکیوں کو بال سکھاتے بھی دیکھا تھا ۔۔

ان سب چیزوں کی موجودگی سے جنات کی موجودگی کا اشارہ پایا جاتا تھا ۔۔

بنگلے کے اردگرد جن کی زمین تھی وہ زمینوں پر جب بھی کام کرنے گئے  انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دکھائی دیتا تھا ۔۔

جو کسان ہل چلاتا اسے پتھر لگتے وہ بیچارہ بھاگ جاتا تھا ۔۔

جو زمینوں پر کام کرنے آتے ہیں انہیں بڑا سا سانپ دکھائی دیتا تھا۔ ۔

یا بڑی سی چیل ان پر حملہ کرتی تھی  ۔۔

لوگ بیچارے ڈر کر بھاگ جاتے تھے ۔

پھر جنوں کے بنگلے کے اردگرد والی زمین بنجر ہونے لگی تھی ۔

ایک دن شفیق بھائی اپنی مزدوری میں مصروف تھے ۔۔

بیل گاڑی پر اناج کی بوریاں لاتے انہوں نے سوچا کہ تیسرا چکر بھی لگا لوں۔ 

تیسرا چکر لگا کر بیل گاڑی سے اناج اتار کر وہ واپس نکلنا چاہتے تھے ۔۔

انہوں نے جلدی جلدی سامان اپنی چادر میں باندھ کر بیل گاڑی پر رکھا اور بیلوں کو تیزی سے ہانپنا شروع کر دیا ۔۔۔


 جب وہ شہر سے نکلے تھے تو سورج غروب ہو چکا تھا ۔

اب شفیق بھائی کے دل میں خوف جاگا تھا ۔۔

جب وہ شہر سے آتے آتے جنات والے بنگلے کے قریب سے گزرے تو چاند اپنے جوبن پر تھا ۔۔

ایسی چاندنی تھی کہ دن کا سماں تھا ۔۔

اچانک شفیق بھائی کے کانوں میں کچھ آوازیں سنائی دیں ۔۔

وہ آوازیں بنگلے سے آ رہی تھی ۔۔

جیسے بہت ساری عورتیں آپس میں لڑ رہی ہوں۔ 

وہ بھی چلا چلا کر ۔۔

عورتوں کے تیز بولنے اور چلانے کی وجہ سے شفیق بھائی کا دماغ پھٹنے  لگا تھا ۔۔

شفیق بھائی کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ۔۔

یا اللہ خیر  وہ تیزی سے بیلوں کو ہانکنے نے لگے ۔۔

اور اس طرح ایک دم عورتوں کا چلانے کا شور ختم ہو گیا ۔۔

اب شفیق بھائی کے کانوں میں چھن چھن کی آواز آنے لگی۔۔

جب یہ چھن چھن کی آواز قریب اور واضح سنائی دینے لگی  تو شفیق بھائی نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو حیران رہ گئے ۔۔

کوئی جوان عورت ان کی بیل گاڑی کے پیچھے چلی آ رہی تھی ۔۔

حسین گورا چٹا رنگ اور سونے کے زیورات سے لدی وہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔

چاند کی چاندنی میں اس کا حسن غضب ڈھا رہا تھا ۔۔

شفیق بھائی کو خوف نے آگھیرا اور وہ بیلوں کو تیزی سے ہانکنے لگے ۔۔

ارے رکو تو صحیح۔۔۔۔

 شفیق بھائی کے کانوں میں اس کی آواز ٹکرائی تو انہوں نے بیل گاڑی کو اور بھی تیز کر دیا ۔۔

ارے رکو تو سہی مجھے بھی ساتھ لے چلو ۔۔

وہ شفیق بھائی کی بیلوں کے پیچھے دوڑنے لگی ۔۔

شفیق بھائی نے بیلوں پر لاٹھیاں برسا دیں تاکہ وہ اور تیز چلیں۔۔

اب وہ عورت بھاگ بھاگ کر بیل گاڑی پر چڑھنے لگی تو شفیق بھائی نے اسے دھکا دیا اور وہ دھڑام سے نیچے گر گئی ۔۔

کچھ دیر بعد وہ دھول میں غائب ہو گئ

 اور پھر دوبارہ اٹھ کر بیل گاڑی پر چڑھنے لگی ۔۔

شفیق بھائی نے پھر سے دھکا دیا وہ پھر گر پڑی اور وہ پھر سے اٹھ کر بیل گاڑی پر چڑھ گئی.

 جب وہ بیل گاڑی پر چڑھ گئی تو شفیق بھائی ایک ہاتھ سے رسی کو تھامتے اور دوسرے ہاتھ سے اس کو دھکا دے کر نیچے گرا دیتے  ۔۔

بیل بھی پوری قوت سے دوڑ رہے تھے ۔

آخر کار وہ عورت پیچھے رہ گئی اور شفیق بھائی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔۔

اور پھر  شفیق بھائی نے سکون کا سانس لیا ۔۔

گھر آتے ہی شفیق بھائی نے بیلوں کو کھول دیا ۔۔

بیل بھی تیزی سے دوڈنےکی وجہ سے ہانپ رہے تھے۔۔

شفیق بھائی بیلوں کو باندھ کر بیوی سے کہنے لگے کہ گاڑی پر چادر میں  باندھا ہوا سوداسلف پڑا ہے ۔۔

اسے اٹھا لاؤ۔۔

 جب بیوی گاڑی سے سامان اٹھانے لگیں تو کیا دیکھتی ہے ۔۔

سامان کے پاس ایک ہار پڑا تھا۔۔ وہ شفیق بھائی سے کہنے لگی یہ ہار کس کا ہے ؟

جب شفیق بھائی نے ہار دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ ۔

 ایک بھاری سونے کا ہار تھا جو یقیناً اس بنگلے والی جن عورت کے گلے سے گرا تھا۔۔

 تو شفیق بھائی نے پورا واقع   بیوی کو سنا ڈالا۔۔

 ان کی بیوی کی خوف سے چیخ نکل گئی اور اس نے  ہار پرے پھینک دیا ۔۔

شفیق بھائی نے اٹھ  کر وہ ہار اپنے پاس رکھ لیا۔۔

سوچا کہ کل کرم دین چاچا کو دکھاؤں گا ۔۔

وہ جو کہیں گے پھر ویسا ہی کروں گا۔۔

 اور یوں وہ کھانا کھا کر سو گیا۔ ۔

 تقریبا آدھی رات کو شفیق بھائی چیخ مار کر اٹھ بیٹھے۔۔بیوی نے دیکھا تو وہ بے ہوش تھے۔ ۔۔

وہ دوڑ کر پڑوسیوں کو بلا لائی۔ شفیق بھائی بے ہوش پڑے تھے ۔۔

 یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔۔۔

 بیوی نے رو رو کر سب کو جننی والا قصہ سنایا ۔۔

کسی نے کہا کہ کرم دین چاچا کولاؤ ۔۔

فوراً چاچا کو بلا لیا گیا ۔۔

کرم دین چاچا نے کچھ پڑھ کر   پھونک ماری توشفیق  بھائی کی آنکھ کھل گئی ۔۔

اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ۔

 کرم دین چاچا نے سب کو وہاں سے جانے کو کہا تو سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔۔

پھر کرم دین چاچا نے شفیق بھائی سے پوچھا تو شفیق بھائی نے سارا واقعہ چاچا کو سنا دیا ۔۔

شفیق بھائی کہنے لگے کہ ابھی میں سویا ہوا تھا کہ ایک عورت میرے اوپر چڑھنے لگی۔۔

 میں سیدھا سویا ہوا تھا جیسے خواب میں دیکھ رہا تھا کچھ جاگی اور کچھ سوئی ہوئی کیفیت میں تھا ۔۔

وہ عورت میرے اوپر آ کر سینے کے بل لیٹ گئی ۔۔

جب میں نے اس عورت کے چہرے کو دیکھا تو اس خوفناک چہرے کو دیکھ کر میں چلا اٹھا ۔۔

اور میں چیخ کر بے ہوش ہوگیا ۔۔

چاچا کرم دین شفیق بھائی کی باتیں سن کر گہری سوچ میں پڑ گئے ۔۔

اب ہر تیسرے اور چوتھے دن شفیق بھائی کے ساتھ ایسا ہی ہونے لگا تھا کہ آدھی رات کو شفیق بھائی چیخ مار کر بے ہوش ہوجاتے تھے ۔۔

کرم دین چاچا وہ ہار اس بنگلے کے قریب جا کر پھینک آئے تھے ۔۔

پھر بھی شفیق بھائی پر وہی کیفیت برقرار تھی ۔۔

بیوی الگ پریشان اور بچے الگ خوفزدہ تھے.. 

شفیق بھائی کو پیروں عاملوں فقیروں اور مولویوں کے پاس لے جایا گیا ۔۔

پھر بھی ان کی حالت وہی رہی کوئی فرق نہ پڑا ۔۔

کسی نے کرم دین چاچا کو فقیر اتھر عطر والے کے بارے میں بتایا ۔۔

وہ جاکر فقیر اتھر عطر  والے کو لے آئے ۔۔

فقیر اتھر بہت پہنچے ہوئے عالم اور بزرگ تھے ۔۔

سب سے پہلے آتے ہی انہوں نے شفیق بھائی کو پانی پر دم کرکے دیا ۔۔

اور پھر کچھ لکڑیاں جمع کروائیں اور ان لکڑیوں کو آگ لگا دی ۔۔

پھر کچھ پڑھنے لگے شفیق بھائی بھی آ گ کے آگے آنکھیں کھول کر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

کرم دین چاچا کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔

عطر والے فقیر نے کچھ پڑھتے پڑھتے جیب سے ایک عطر کی شیشی نکالی ڈھکن کھولا اور آگ میں انڈیل دی۔ ۔

اور آگ اب مزید بھڑک اٹھی ۔۔

پھر فقیر بابا نے اٹھ کر ایک جلتی ہوئی لکڑی اٹھائی اور وہ لکڑی شفیق بھائی کے پاؤں پر رکھ دی۔

شفیق بھائی نسوانی آواز میں چیخ اٹھے ۔۔

 مت جلاؤ مجھے چھوڑ دو ۔۔

مجھے شفیق سے عشق ہو گیا ہے ۔۔

پھر عطر والے فقیر بابا جلال میں آئے اور کہنے لگے ۔۔

ابھی تو صرف میں نے تیرا پاؤں جلایا ہے ۔۔

اب میں تجھے آگ میں پھینک دوں گا ۔۔

شفیق بھائی پھر عورت والی آواز میں روتے ہوئے فقیر بابا کے پاؤں پر گر گئے ۔۔

فقیر بابا اپنی چھڑی شفیق بھائی کی کمر پر برسانے لگے ۔

شفیق بھائی اپنی نسوانی آواز میں چیختے چلاتے رہے مگر فقیر بابا انہیں مارتے رہے ۔۔

شفیق بھائی نسوانی آواز میں کہنے لگے ۔

اگر میں جاؤ گی تو اسے برباد کرکے جاؤں گی ۔

فویر بابا نے کہا ۔

تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی ۔

آخر شفیق بھائی بے ہوش ہوگئے ۔

پھر فقیر بابا ہاتھ روک کر دور جا کر بیٹھ گئے ۔

اور آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگے ۔

کچھ دیر بعد آنکھیں کھول دیں ۔

بجھی بجھی آواز میں کہنے لگے۔

میں ان کی چھوٹی بیٹی کو بچا نہ سکا وہ جننی آئی تھی ..

وہ شفیق بھائی کو مار کر ان کے سب گھر والوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی ۔۔

باقیوں کو اللہ کے فضل و کرم سے بچایا جا سکا ہے ۔

لیکن وہ پھر بھی اپنا کام کر گئی ہے ۔

وہ شفیق کی چھوٹی بیٹی کو مار گئی ہے ۔

جب بابا نے اپنی بات ختم کی تو گھر میں سے رونے کی آواز آئی ۔

کیا دیکھتے ہیں کہ شفیق بھائی کی چھوٹی بیٹی مر چکی ہے ۔

اس کی بیوی رو رو کر سب کو بتا رہی تھی کہ میری بیٹی ٹھیک ٹھاک تھی کہ اچانک  اٹھ کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ ماں مجھے بچا لو ۔

ماں یہ عورت میرا گلا دبا رہی ہے ۔

بس کچھ ہی لمحوں میں اس کی گردن لڑک گی ۔

فقیر بابا نے شفیق بھائی کو جننی سے تو بچا لیا ۔

پھر بھی اس جننی نے شفیق بھائی کی چھوٹی بیٹی کو مار کر ہی سکون لیا ۔

رو دھو کر شفیق بھائی اور ان کے گھر والوں کو صبر آ ہی گیا ۔

جاتے وقت فقیربابا سے گاؤں کے لوگوں نے کہا تھا ۔

سائیں جی مہربانی فرما کر اس جنات والے  بنگلے سے جنات کا بسیرا ختم کروا دو ۔

تو فقیربابا کہنے لگے ۔

تم ان کی طرف نہ جاؤ تو وہ تم کو کبھی تنگ نہیں کریں گے ۔

کرم دین چاچا نے کہا کہ بھائی شفیق نے تو انہیں تنگ بھی نہیں کیا تھا شفیق تو اپنے راستے سے گزر رہا تھا ۔

فقیر نے کہا کہ کرم دین جب شفیق وہاں سے گزر رہا تھا تو اس وقت جنوں کی عورتوں میں آپس میں جھگڑا ہو رہا تھا ۔

وہ جننی گھر سے ناراض ہوکر باہر آئی تھی تو شفیق بھائی سے اس کا سامنا ہوا ۔

وہ شفیق سے مدد مانگ رہی تھی..

 وہ اس کی بیل گاڑی پر بیٹھ کر جانا چاہتی تھی ۔

مگر شفیق نے ہر بار اس کو دھکے دے دے کر اتار دیا ۔

شفیق کے اس رویے کے باوجود وہ جننی اس پر عاشق ہو گئی تھی ۔

اس طرح شفیق ان کے چنگل میں پھنس گیا ۔

یہ کہہ کر عطر والے بابا وہاں سے رخصت ہوگئے ۔

یہ جنوں والا بنگلہ آج بھی وہاں اپنی جگہ موجود p>

لوگ آج بھی اس بنگلے سے خوف کھاتے ہیں ۔

کرم دین چاچا اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔

مگر انہوں نے کچھ لوگوں کو قرآنی آیات یاد کروا دی تھی ۔

کہ جب بھی اس جنات والے بنگلے کے پاس سے گزرو تو یہ آیتیں پڑھتے ہوئے اپنے لئے خیر و عافیت کی دعا مانگتے ہوئے گزرا کرو ۔

شفیق بھائی بھی اب اپنی زندگی بہت آرام و سکون سے گزار رہے ہیں ۔

لیکن اس جننی نے شفیق بھائی کی اس بیٹی کو مار ڈالا جس بیٹی سے وہ جنون کی حد تک محبت کرتے تھے ۔...

Comments

Popular posts from this blog

Online earning without investment

Remove Blemishes & Spots

روہت شرما: سکول کی فیس معاف کروانے سے ورلڈ کپ فائنل تک کا سفر